EN हिंदी
جب خبر ہی نہ کوئی موسم گل کی آئی | شیح شیری
jab KHabar hi na koi mausam-e-gul ki aai

غزل

جب خبر ہی نہ کوئی موسم گل کی آئی

نسیم سحر

;

جب خبر ہی نہ کوئی موسم گل کی آئی
کاغذی پھول پہ کچھ سوچ کے تتلی آئی

سبز پتوں نے بھی شاخوں سے بغاوت کر دی
آج اس شہر میں کس زور کی آندھی آئی

اب یہ بستی ہوئی دیواروں کی کثرت کا شکار
اب یہاں رہنے میں بے طرح خرابی آئی

قہقہہ شب نے لگایا ہے بڑے طنز کے ساتھ
صبح جب اپنی رہائی پہ بھی روتی آئی

آنکھ اک ابر کے ٹکڑے کو ترس جاتی تھی
بارشوں سے جہاں اب اتنی تباہی آئی

رات بھر صبح کی امید پہ زندہ تھا مریض
صبح ہوتے ہی اسے آخری ہچکی آئی

مر گیا حبس کی بستی میں جوں ہی کوئی نسیمؔ
نوحہ خوانی کو وہاں تازہ ہوا بھی آئی