جب کہا میں نے کہ مر مر کے بچے ہجر میں ہم
ہنس کے بولے تمہیں جینا تھا تو مر کیوں نہ گئے
ہم تو اللہ کے گھر جا کے بہت پچھتائے
جان دینی تھی تو کافر ترے گھر کیوں نہ گئے
سوئے دوزخ بت کافر کو جو جاتے دیکھا
ہم نے جنت سے کہا ہائے ادھر کیوں نہ گئے
پہلے اس سوچ میں مرتے تھے کہ جیتے کیوں ہیں
اب ہم اس فکر میں جیتے ہیں کہ مر کیوں نہ گئے
زاہدو کیا سوئے مشرق نہیں اللہ کا گھر
کعبے جانا تھا تو تم لوگ ادھر کیوں نہ گئے
تو نے آنکھیں تو مجھے دیکھ کے نیچی کر لیں
میرے دشمن تری نظروں سے اتر کیوں نہ گئے
سن کے بولے وہ مرا حال جدائی مضطرؔ
جب یہ حالت تھی تو پھر جی سے گزر کیوں نہ گئے
غزل
جب کہا میں نے کہ مر مر کے بچے ہجر میں ہم (ردیف .. ے)
مضطر خیرآبادی