EN हिंदी
جب کہا میں ہوں ترے عشق میں بدنام کہ تو | شیح شیری
jab kaha main hun tere ishq mein badnam ki tu

غزل

جب کہا میں ہوں ترے عشق میں بدنام کہ تو

مضطر خیرآبادی

;

جب کہا میں ہوں ترے عشق میں بدنام کہ تو
ہنس کے کس ناز سے بولا بت خود کام کہ تو

کون سی راہ چلوں کفر محبت سچ کہہ
کام آئے گا وہاں مذہب اسلام کہ تو

دھوکے دے دے کہ مرا وقت کٹا ہے کہ ترا
وعدے کر کر کے میں سویا ہوں سر شام کہ تو

پردہ اٹھنے سے مرا راز کھلا ہے کہ ترا
گھر سے نکلا ہے ترے ساتھ مرا نام کہ تو

کچھ تو کہہ اے دل بے تاب ارادے کیا ہیں
نامہ بر جائے گا لے کر مرا پیغام کہ تو

خاتمہ ہجر کی شب کون کرے گا میرا
حسرت وصل کا بگڑا ہوا انجام کہ تو

ساعت عیش دو روزہ تری حاجت کیا ہے
غم جاوید نکالے گا مرا کام کہ تو

کون پیتا ہے محبت کا پیالہ پی لے
مدعی لے گا مرے ہاتھ سے اک جام کہ تو

میں نے سوچا کہ نگاہیں انہیں ڈھونڈیں کہ خیال
ناگہاں بول اٹھی گردش ایام کہ تو

تجھ کو کیوں رنجش بے جا ہے عدو کا کھٹکا
میں اٹھاؤں گا محبت میں یہ الزام کہ تو