EN हिंदी
جب کبھی درد کی تصویر بنانے نکلے | شیح شیری
jab kabhi dard ki taswir banane nikle

غزل

جب کبھی درد کی تصویر بنانے نکلے

احیا بھوجپوری

;

جب کبھی درد کی تصویر بنانے نکلے
زخم کی تہہ میں کئی زخم پرانے نکلے

چین ملتا ہے ترے شوق کو پورا کر کے
ورنہ اے لخت جگر کون کمانے نکلے

وقت کی گرد میں پیوست تھے سب زخم مرے
جب چلی تیز ہوا لاکھ فسانے نکلے

یہ کسی طور بھی اللہ کو منظور نہیں
کہ تو احسان کرے اور جتانے نکلے

پہلے نفرت کی وہ دیوار گرائے احیاؔ
پھر محبت کا نیا شہر بسانے نکلے