جب کبھی بھولنے والوں کا سلام آتا ہے
کارواں عمر گریزاں کا ٹھہر جاتا ہے
تیری یادوں کے دیے کرتا ہوں روشن شب کو
تب کہیں جا کے دل زار سکوں پاتا ہے
دیر یہ ہے وہ حرم ہے وہ صنم خانہ ہے
دیکھنا ہے دل دیوانہ کدھر جاتا ہے
ان سے کیا کیجیے بیگانہ وشی کا شکوہ
وقت کے ساتھ ہر انسان بدل جاتا ہے
تم نہیں ہوتے تو دل روٹھا ہوا رہتا ہے
تم جو آتے ہو تو دیوانہ بہل جاتا ہے
آہ اس وقفہ فرصت پہ دل و جان نثار
آپ کا دھیان جب آتا ہی چلا جاتا ہے
ترک وارفتگیٔ شوق کے با وصف ہنوز
چاند سے زہرہ جمالوں کا سلام آتا ہے
تو نے تدبیر مداوا نہ کی لیکن یہ نہ بھول
بات رہ جاتی ہے اور وقت گزر جاتا ہے
امتیاز من و تو جب نہیں رہتا ہے جلیلؔ
وقت ایسا بھی محبت میں ضرور آتا ہے

غزل
جب کبھی بھولنے والوں کا سلام آتا ہے
جلیل شیر کوٹی