جب جدا پیڑوں سے کٹ کر ڈالی ڈالی ہو گئی
اک تیرے جنگل کی ماجد گود خالی ہو گئی
کوئی موسم ہو بہ ہر صورت ہوا چلتی رہی
بڑھ گیا اتنا دھواں ہر شکل کالی ہو گئی
میرے چہرے پر لکھی تھیں سرخیاں اخبار کی
جو بھی صورت سامنے آئی سوالی ہو گئی
ہیں وہی الفاظ لیکن وہ معانی ہی نہیں
بات صلح و آشتی کی آج گالی ہو گئی
تیری تصویروں پہ بھی اپنا نہیں ہے اختیار
فاصلہ اتنا بڑھا صورت خیالی ہو گئی
خوں کا خط استوا ماجدؔ تعصب میں گھرا
پیار کی باد صبا باد شمالی ہو گئی

غزل
جب جدا پیڑوں سے کٹ کر ڈالی ڈالی ہو گئی
ماجد الباقری