جب جب میں زندگی کی پریشانیوں میں تھا
اپنوں کے باوجود بھی تنہائیوں میں تھا
آبادیوں نے سارے بھرم ہی مٹا دیے
اس سے زیادہ خوش تو میں ویرانیوں میں تھا
ساحل پہ جو کھڑے تھے انہیں موج لے گئی
میں بچ گیا کہ یار میں طغیانیوں میں تھا
آسانیوں میں زیست ہی بے کیف ہو گئی
جینے کا اصل لطف تو دشواریوں میں تھا
کرتا بھی کیا کسی سے شفا کی کوئی امید
سارا کا سارا شہر ہی بیماریوں میں تھا
جو سادہ لوح تھے وہ نشیبوں میں رہ گئے
چالاک جو بھی شخص تھا اونچائیوں میں تھا
کچھ آپ ہی نے غور سے ڈالی نہیں نظر
میرا بھی نام آپ کے شیدائیوں میں تھا
باتیں تو سطح پر یوں بہت سی ہوئیں مگر
میرا دماغ جھیل کی گہرائیوں میں تھا
نایابؔ بھائی بن کے گلے جو ملا تھا کل
اس شخص کا شمار بھی دنگائیوں میں تھا
غزل
جب جب میں زندگی کی پریشانیوں میں تھا
نتن نایاب