EN हिंदी
جب جاں پہ لب جاناں کی مہک اک بارش منظر ہو جائے | شیح شیری
jab jaan pe lab-e-jaanan ki mahak ek barish manzar ho jae

غزل

جب جاں پہ لب جاناں کی مہک اک بارش منظر ہو جائے

جمشید مسرور

;

جب جاں پہ لب جاناں کی مہک اک بارش منظر ہو جائے
ہم ہاتھ بڑھائیں اور اس میں مہتاب گل تر ہو جائے

کب دل کا لڑکپن جائے گا ہر وقت یہی ہے ضد اس کی
جو مانگے اسی پل مل جائے جو سوچے وہیں پر ہو جائے

اک عالم جاں وہ ہوتا ہے تخصیص نہیں جس میں کوئی
اس وقت ہماری بانہوں میں جو آئے وہ دلبر ہو جائے

آشوب محبت کا آنسو رکھتا ہے تلون فطرت میں
آنکھوں میں رہے تو قطرہ ہے ٹپکے تو سمندر ہو جائے

جتنا بھی سمیٹیں آنکھوں میں رہتا ہی نہیں کچھ یاد ہمیں
یا رب وہ طلسم عارض و لب اک روز تو ازبر ہو جائے

جمشیدؔ متاع حسن جہاں سب اہل نظر کا حصہ ہے
جو چاہے قلندر ہو جائے جو چاہے سکندر ہو جائے