EN हिंदी
جب ہجر کے شہر میں دھوپ اتری میں جاگ پڑا تو خواب ہوا | شیح شیری
jab hijr ke shahr mein dhup utri main jag paDa to KHwab hua

غزل

جب ہجر کے شہر میں دھوپ اتری میں جاگ پڑا تو خواب ہوا

محسن نقوی

;

جب ہجر کے شہر میں دھوپ اتری میں جاگ پڑا تو خواب ہوا
مری سوچ خزاں کی شاخ بنی ترا چہرہ اور گلاب ہوا

برفیلی رت کی تیز ہوا کیوں جھیل میں کنکر پھینک گئی
اک آنکھ کی نیند حرام ہوئی اک چاند کا عکس خراب ہوا

ترے ہجر میں ذہن پگھلتا تھا ترے قرب میں آنکھیں جلتی ہیں
تجھے کھونا ایک قیامت تھا ترا ملنا اور عذاب ہوا

بھرے شہر میں ایک ہی چہرہ تھا جسے آج بھی گلیاں ڈھونڈتی ہیں
کسی صبح اسی کی دھوپ کھلی کسی رات وہی مہتاب ہوا

بڑی عمر کے بعد ان آنکھوں میں کوئی ابر اترا تری یادوں کا
مرے دل کی زمیں آباد ہوئی مرے غم کا نگر شاداب ہوا

کبھی وصل میں محسنؔ دل ٹوٹا کبھی ہجر کی رت نے لاج رکھی
کسی جسم میں آنکھیں کھو بیٹھے کوئی چہرہ کھلی کتاب ہوا