جب ہمیں مسجد جانا پڑا ہے
راہ میں اک مے خانہ پڑا ہے
جائیے اب کیوں جانب صحرا
شہر تو خود ویرانہ پڑا ہے
ہم نہ پئیں گے بھیک کی ساقی
لے یہ ترا پیمانہ پڑا ہے
حرج نہ ہو تو دیکھتے چلئے
راہ میں اک دیوانہ پڑا ہے
ختم ہوئی سب رات کی محفل
ایک پر پروانہ پڑا ہے
غزل
جب ہمیں مسجد جانا پڑا ہے
کیف بھوپالی