جب درد کی شمعیں جلتی ہیں احساس کے نازک سینے میں
اک حسن سا شامل ہوتا ہے پھر تنہا تنہا جینے میں
کچھ لطف کی گرمی کی خاطر کچھ جان وفا کے صدقے میں
گیسوئے الم کے سائے میں راحت سی ملی ہے پینے میں
آغوش تمنا چھو آئیں جب زلف یار کی خوشبو میں
آنکھوں میں ساون لہرایا دیپک سا سلگا سینے میں
موسیقیٔ حسن کی موجیں تھی کچھ آنکھوں میں کچھ پیالوں میں
جو ساحل دل تک ہو آئیں یادوں کے ایک سفینے میں
پلکوں میں سلگتے تاروں سے میں رات کی افشاں چن نہ سکا
شعلوں کو چھپائے پھرتا ہوں میں دل کے ایک نگینے میں
وہ رنگ حیا احساس طرب آئینۂ رخ کے عکس فگن
اک تابش تیرے چہرے کی اک آنچ سی میرے سینے میں
کلیوں نے گھونگھٹ سرکائے شبنم نے موتی رول دئے
لذت سی ملی ہے اشکوں سے یہ چاک جگر کا سینے میں
نغموں کی چاندنی چھٹکی ہے شعروں کے شبستاں مہکے ہیں
پھر ساز غزل لے آیا ہوں اک لطف ہے اکثر جینے میں

غزل
جب درد کی شمعیں جلتی ہیں احساس کے نازک سینے میں
قیصر قلندر