جب چاندنیاں گھر کی دہلیز پہ چلتی ہیں
آسیب زدہ روحیں سڑکوں پہ ٹہلتی ہیں
دراصل وہ نیندیں ہیں آغوش میں اشکوں کی
پلکوں کی منڈیروں سے ہر شب جو پھسلتی ہیں
معصوم امیدیں ہیں حالات کی گردش میں
گھر میں کسی مفلس کے شہزادیاں پلتی ہیں
اے کاش کہ روشن ہوں فانوس امیدوں کے
آنکھوں کے کٹوروں میں کچھ شمعیں پگھلتی ہیں
خود سے ہی نہ ہو جاؤں انجان کسی دن میں
ہر روز تمنائیں پوشاک بدلتی ہیں
مسلا گیا جس دن سے کلیوں کو یہاں میناؔ
کچھ خوشبوئیں صحرا سے ہر رات نکلتی ہیں
غزل
جب چاندنیاں گھر کی دہلیز پہ چلتی ہیں
مینا نقوی