جب بھی تمہاری یاد کی آہٹ مجھے ملی
تنہائی کانپتی ہوئی مجھ سے جدا ہوئی
آواز دے کے کس کو بلاؤں میں اپنے پاس
ظلمت کی چار سو مرے دیوار اٹھ گئی
وہ لوگ اتنی دیر میں کس سمت کو گئے
ساحل پہ آ چکا تھا سفینہ ابھی ابھی
ہیں شعلہ بار تاروں کی آنکھیں نہ جانے کیوں
جھلسا رہی ہے جسم کو کیوں آج چاندنی
ہم اپنے دل کا حال سنائیں کسے یہاں
لگتا ہے سارا شہر ہمیں شمسؔ اجنبی
غزل
جب بھی تمہاری یاد کی آہٹ مجھے ملی
شمس فریدی