EN हिंदी
جب بھی تمہاری یاد کی آہٹ مجھے ملی | شیح شیری
jab bhi tumhaari yaad ki aahaT mujhe mili

غزل

جب بھی تمہاری یاد کی آہٹ مجھے ملی

شمس فریدی

;

جب بھی تمہاری یاد کی آہٹ مجھے ملی
تنہائی کانپتی ہوئی مجھ سے جدا ہوئی

آواز دے کے کس کو بلاؤں میں اپنے پاس
ظلمت کی چار سو مرے دیوار اٹھ گئی

وہ لوگ اتنی دیر میں کس سمت کو گئے
ساحل پہ آ چکا تھا سفینہ ابھی ابھی

ہیں شعلہ بار تاروں کی آنکھیں نہ جانے کیوں
جھلسا رہی ہے جسم کو کیوں آج چاندنی

ہم اپنے دل کا حال سنائیں کسے یہاں
لگتا ہے سارا شہر ہمیں شمسؔ اجنبی