جب بھی تری یادوں کی چلنے لگی پروائی
ہر زخم ہوا تازہ ہر چوٹ ابھر آئی
اس بات پہ حیراں ہیں ساحل کے تماشائی
اک ٹوٹی ہوئی کشتی ہر موج سے ٹکرائی
میخانے تک آ پہنچی انصاف کی رسوائی
ساقی سے ہوئی لغزش رندوں نے سزا پائی
ہنگامہ ہوا برپا اک جام اگر ٹوٹا
دل ٹوٹ گئے لاکھوں آواز نہیں آئی
اک رات بسر کر لیں آرام سے دیوانے
ایسا بھی کوئی وعدہ اے جان شکیبائی
کس درجہ ستم گر ہے یہ گردش دوراں بھی
خود آج تماشا ہیں کل تھے جو تماشائی
کیا جانیے کیا غم تھا مل کر بھی یہ عالم تھا
بے خواب رہے وہ بھی ہم کو بھی نہ نیند آئی

غزل
جب بھی تری یادوں کی چلنے لگی پروائی
حفیظ بنارسی