جب بھی تقدیر کا ہلکا سا اشارا ہوگا
آسماں پر کہیں میرا بھی ستارا ہوگا
دشمنی نیند سے کر کے میں بہت ڈرتا ہوں
اب کہاں پر مرے خوابوں کا گزارا ہوگا
منتظر اس کے ہیں ہم کتنے یگوں سے لیکن
جانے کس دور میں وہ چاند ہمارا ہوگا
میں نے آنکھوں کو چمکتے ہوئے دیکھا ہے ابھی
آج پھر ان میں کوئی خواب تمہارا ہوگا
دل پرستار نہیں اپنا پجاری بھی نہیں
دیوتا کوئی بھلا کیسے ہمارا ہوگا
غزل
جب بھی تقدیر کا ہلکا سا اشارا ہوگا
آلوک شریواستو