EN हिंदी
جب بھی کوئی بات کی آنسو ڈھلکے ساتھ | شیح شیری
jab bhi koi baat ki aansu Dhalke sath

غزل

جب بھی کوئی بات کی آنسو ڈھلکے ساتھ

انجم رومانی

;

جب بھی کوئی بات کی آنسو ڈھلکے ساتھ
ہم بھی پاگل ہو گئے من پاگل کے ساتھ

رات کو کالی چاندنی دن کو کالی دھوپ
ڈھونڈیں آنکھیں روشنی رہیں دھندلکے ساتھ

ماریں ٹامک ٹوئیے اندھیارے میں لوگ
تارے سارے بجھ گئے دل کے کنول کے ساتھ

آج ہے من میں رن پڑا آج کی رکھو لاج
جھوٹی کل کی دوستی جھوٹے کل کے ساتھ

پاپ کرو جی کھول کر دھبوں کی کیا سوچ
جب جی چاہا دھو لیے گنگا جل کے ساتھ

گرو تو خیر گرو ہوا اس کی بھلی کہی
چلتا ہے کیا بالکا اچھل اچھل کے ساتھ

ریل بجائے سیٹیاں دوڑو وقت چلا
حقہ پینے چودھری گیا اجل کے ساتھ

طوطوں نے ہیں آج کل کھولے یہاں اسکول
بیلوں نے ہیں آدمی جوتے ہل کے ساتھ

آن کی آن میں ہو گئی دنیا اور سے اور
ہم تم بیٹھے رہ گئے بیتے پل کے ساتھ

دنیا کی یہ ریت ہے مانگے بھیک نہ دے
پائے وہی جو چھین لے بڑھ کر بل کے ساتھ

کوئی وقت کو روک لو گیا نہ آئے ہاتھ
آتا پل بھی لو گیا جاتے پل کے ساتھ

گھر بیٹھے ہوگی نہیں وحشت دل کی دور
راس رچی ہے شہر میں دیکھو چل کے ساتھ

مدھ ماتے کا ساتھ کیا آئی لہر گیا
پرتو لے من بانورا ہر آنچل کے ساتھ

ہم کو دیکھو پی گئے مٹکے زہر بھرے
تم تو بے سدھ ہو گئے اک بوتل کے ساتھ

جاتا تھا اک قافلہ روپ نگر کی اور
ہم بھی انجمؔ ہو لیے بھیس بدل کے ساتھ