جب بھی کمرے میں کچھ ہوا آئی
میں نے جانا وہی صدا آئی
ذہن جس کو اٹھائے پھرتا تھا
آنکھ اس کو کہیں گنوا آئی
شاخ ٹوٹی تو اک صدا نکلی
سارے جنگل کو جو جگا آئی
جب درختوں سے جھڑ گئے پتے
بوجھ لادے ہوئے ہوا آئی
میرے گھر میں تڑپ رہی ہے رات
خواب جانے کہاں لٹا آئی
غزل
جب بھی کمرے میں کچھ ہوا آئی
عابد عالمی