جب بھی ڈوبے ہوئے سورج نے ابھرنا چاہا
شہر والوں نے بھی گلیوں میں بکھرنا چاہا
آج کانٹوں سے الجھتا ہے گریباں اس کا
جس نے سبزے پہ کبھی پاؤں نہ دھرنا چاہا
ہو گئیں صورت دیوار ہوائیں حائل
جب کسی اشک نے دامن پہ اترنا چاہا
چاندنی شب تھی کہ میں تھا کہ ہوا کے سائے
ہر کسی نے ترے کوچے میں ٹھہرنا چاہا
لے گیا کیفؔ صلیبوں کو اٹھا کر کوئی
غم کے ماروں نے کسی وقت جو مرنا چاہا
غزل
جب بھی ڈوبے ہوئے سورج نے ابھرنا چاہا
کیف انصاری