EN हिंदी
جب بھی ڈوبے ہوئے سورج نے ابھرنا چاہا | شیح شیری
jab bhi Dube hue suraj ne ubharna chaha

غزل

جب بھی ڈوبے ہوئے سورج نے ابھرنا چاہا

کیف انصاری

;

جب بھی ڈوبے ہوئے سورج نے ابھرنا چاہا
شہر والوں نے بھی گلیوں میں بکھرنا چاہا

آج کانٹوں سے الجھتا ہے گریباں اس کا
جس نے سبزے پہ کبھی پاؤں نہ دھرنا چاہا

ہو گئیں صورت دیوار ہوائیں حائل
جب کسی اشک نے دامن پہ اترنا چاہا

چاندنی‌ شب تھی کہ میں تھا کہ ہوا کے سائے
ہر کسی نے ترے کوچے میں ٹھہرنا چاہا

لے گیا کیفؔ صلیبوں کو اٹھا کر کوئی
غم کے ماروں نے کسی وقت جو مرنا چاہا