جب بھی بارش میری آنکھوں میں اتر جاتی ہے
بادلوں میں تری تصویر ابھر جاتی ہے
ڈوبنا جن ہمیں ہو مقصود وہ کب سوچتے ہیں
موج کس سمت سے آتی ہے کدھر جاتی ہے
میرے احساس کی بینائی ہے خوشبو اس کی
آگ بن کر میری رگ رگ میں اتر جاتی ہے
دن وہی دن ہے جو بیتے تری امید کے ساتھ
شب وہی شب جو ترے ساتھ گزر جاتی ہے
کیسی دیوار اٹھا دی مرے ہمسائے نے
اب سدا آتی ہے کوئی نہ ادھر جاتی ہے
اپنے اطراف اندھیروں کو بسائے رکھیے
روشنی ان سے ذرا اور نکھر جاتی ہے

غزل
جب بھی بارش میری آنکھوں میں اتر جاتی ہے
خواجہ ساجد