EN हिंदी
جب بیاں کرو گے تم ہم بیاں میں نکلیں گے | شیح شیری
jab bayan karoge tum hum bayan mein niklenge

غزل

جب بیاں کرو گے تم ہم بیاں میں نکلیں گے

عدیم ہاشمی

;

جب بیاں کرو گے تم ہم بیاں میں نکلیں گے
ہم ہی داستاں بن کر داستاں میں نکلیں گے

عشق ہو محبت ہو پیار ہو کہ چاہت ہو
ہم تو ہر سمندر کے درمیاں میں نکلیں گے

رات کا اندھیرا ہی رات میں نہیں ہوتا
چاند اور ستارے بھی آسماں میں نکلیں گے

دیکھ تو کبھی شب کو کارواں ستاروں کا
نور کے کئی محمل کہکشاں میں نکلیں گے

بولیاں زمانے کی مختلف تو ہوتی ہیں
لفظ پیار کے لیکن ہر زباں میں نکلیں گے

کاٹ کر بدن سارا قاش قاش میں جھانکیں
آپ کے ہیولے ہی قلب و جاں میں نکلیں گے

خاک کا سمندر بھی کیا عجب سمندر ہے
اس جہاں میں ڈوبیں گے اس جہاں میں نکلیں گے

قصۂ سخن گوئی جب عدیمؔ آئے گا
ہم بھی واقعہ بن کر داستاں میں نکلیں گے

صرف سبز پتے ہی پیڑ پر نہیں ہوتے
کچھ نہ کچھ پرندے بھی آشیاں میں نکلیں گے