EN हिंदी
جب بڑھا درد کی موجوں کا دباؤ صاحب | شیح شیری
jab baDha dard ki maujon ka dabaw sahab

غزل

جب بڑھا درد کی موجوں کا دباؤ صاحب

ندیم سرسوی

;

جب بڑھا درد کی موجوں کا دباؤ صاحب
میری سانسوں کی لرزنے لگی ناؤ صاحب

اس سے بڑھ کر نہیں افسردہ مزاجی کا علاج
دل اگر روئے تو اوروں کو ہنساؤ صاحب

گھپ اندھیرے میں اگاتا ہوں سخن کا سورج
بے سبب تھوڑی ہے راتوں سے لگاؤ صاحب

جب نہیں ملتی نئے زخم کی سوغات مجھے
چھیل دیتا ہوں پرانا کوئی گھاؤ صاحب

جس کی دانائی نے منسوخ کئے ہوش و حواس
ایسے نادان پہ پتھر نہ اٹھاؤ صاحب

میں نے اس حسن مجسم کی زیارت کی ہے
میری آنکھوں کے ذرا دام لگاؤ صاحب

بجلیاں وصل کی سانسوں پہ گراؤ صاحب
رخ سے بھیگی ہوئی زلفوں کو ہٹاؤ صاحب

جیسے صحراؤں میں ملتے ہیں دو پیاسے دریا
ہونٹ سے ہونٹ کچھ اس طرح ملاؤ صاحب

دل محبت کی ثقافت کا ازل سے ہے امیں
اس شہنشاہ کو نفرت نہ سکھاؤ صاحب

جیت کر جشن منانا تو ہوئی عام سی بات
ہار کر بھی تو کبھی جشن مناؤ صاحب

ہم نئے عہد کے سقراط ہیں اس بار ہمیں
زہر کا پیالہ نہیں جام پلاؤ صاحب