جب اشکوں میں صدائیں ڈھل رہی تھیں
سر مژگاں دعائیں جل رہی تھیں
لہو میں زہر گھلتا جا رہا تھا
مرے اندر بلائیں پل رہی تھیں
مقید حبس میں اک مصلحت کے
امیدوں کی ردائیں گل رہی تھیں
پروں میں یاسیت جمنے لگی تھی
بہت مدت ہوائیں شل رہی تھیں
وہاں اس آنکھ نے بدلے تھے تیور
یہاں ساری دشائیں جل رہی تھیں
غزل
جب اشکوں میں صدائیں ڈھل رہی تھیں
عنبرین صلاح الدین