EN हिंदी
جب عقل نے کر ڈالا جذبات سے سمجھوتہ | شیح شیری
jab aql ne kar Dala jazbaat se samjhauta

غزل

جب عقل نے کر ڈالا جذبات سے سمجھوتہ

محمود بیگ ساز

;

جب عقل نے کر ڈالا جذبات سے سمجھوتہ
ہم کیوں نہ کریں اپنے حالات سے سمجھوتہ

جینے کے لیے آخر کرنا ہی پڑا مجھ کو
دن رات کی گردش میں دن رات سے سمجھوتہ

حالات بدلنے میں کچھ دیر نہیں لگتی
بہتر ہے ابھی کر لیں حالات سے سمجھوتہ

جب اس نے جھلک دیکھی پستی میں بلندی کی
سورج نے کیا بڑھ کر ذرات سے سمجھوتہ

آسان نہیں اپنی اوقات سمجھ لینا
مشکل ہے بہت اپنی اوقات سے سمجھوتہ

کی یوں تو مرے نفس سرکش نے بہت کوشش
ٹوٹا نہ مرے سر کا سجدات سے سمجھوتہ

ہر سمت فضاؤں سے برسے تو لہو برسے
یہ کس نے کیا چھپ کر برسات سے سمجھوتہ

جب دل کے تقاضوں کو خود عقل ہی ٹھکرا دے
تب ہو بھی تو کیسے ہو جذبات سے سمجھوتہ

حالات نے سمجھوتہ اے سازؔ کیا مجھ سے
میں نے نہ کیا اپنے حالات سے سمجھوتہ