جب اپنوں سے دور پرائے دیس میں رہنا پڑتا ہے
سان گمان نہ ہوں جس کا وہ دکھ بھی سہنا پڑتا ہے
خود کو مارنا پڑتا ہے اس آٹے دال کے چکر میں
دو کوڑی کے آدمی کو بھی صاحب کہنا پڑتا ہے
بنجر ہوتی جاتی ہو جب پل پل یادوں کی وادی
دریا بن کر اپنی ہی آنکھوں سے بہنا پڑتا ہے
محرومی کی چادر اوڑھے تنہا قیدی کی مانند
خالم خالی دیواروں کے اندر رہنا پڑتا ہے
باتیں کرنی پڑتی ہیں دیوار پہ بیٹھے کوے سے
اس چڑیا سے سارے دن کا قصہ کہنا پڑتا ہے
غزل
جب اپنوں سے دور پرائے دیس میں رہنا پڑتا ہے
افضال فردوس