EN हिंदी
جب اپنے آپ کو ملبوس میں چھپایا تھا | شیح شیری
jab apne-ap ko malbus mein chhupaya tha

غزل

جب اپنے آپ کو ملبوس میں چھپایا تھا

خورشید سحر

;

جب اپنے آپ کو ملبوس میں چھپایا تھا
تمام شہر کو ہم نے برہنہ پایا تھا

نہ اپنی صبح کی خوشیاں نہ اپنی شام کا غم
ہمارے پاس تو جو کچھ تھا وہ پرایا تھا

تلاش کرتی ہے جس کو تمہاری راہ گزر
وہ میں نہیں تھا مری جستجو کا سایہ تھا

وہ ہنس رہا تھا مگر اشک غم نہ روک سکا
ذرا سی بات پہ جس نے ہمیں رلایا تھا

عجیب موڑ تھا ترک تعلقات کا وہ
جب اپنے آپ سے ہم نے فریب کھایا تھا

دھواں دھواں تھی فضا گرد گرد تھا منظر
دھندلکا شام کا جس دن سحر پہ چھایا تھا