جب اپنا مقدر ٹھہرے ہیں زخموں کے گلستاں اور سہی
کچھ سرخیٔ خنجر اور سوا رنگینیٔ داماں اور سہی
دل داریٔ دست قاتل کو باقی ہیں ہمیں تو آؤ چلو
اس کوچۂ جاناں میں یارو اک جشن چراغاں اور سہی
کٹتے ہیں کٹیں بازو و گلو بہتا ہے بہے گلنار لہو
اک معرکۂ دل اور سہی اک معرکۂ جاں اور سہی
کٹتے ہی کٹے گی ہجر کی شب لیے درد چلو تا صبح طرب
ان شوق کی ماری آنکھوں سے کچھ وعدہ و پیماں اور سہی
بچھنے دو بساط زیست اگر جیتے تو سرافرازی ورنہ
سب ہارے ہوئے تو بیٹھے ہو یہ نقد دل و جاں اور سہی
غزل
جب اپنا مقدر ٹھہرے ہیں زخموں کے گلستاں اور سہی
شاہد اختر