جب اچھے تھے دن رات کم یاد آئے
برا وقت آیا تو ہم یاد آئے
جو سمجھو محبت کی توہین ہے یہ
ستم گر سے پہلے ستم یاد آئے
زمانہ سے جب پڑ گیا واسطہ تو
تری زلف کے پیچ و خم یاد آئے
ملی جو محبت کے بدلے میں نفرت
ہمیں اہل دنیا کے غم یاد آئے
ہنسی آ گئی ان کی باتوں پہ یوں ہی
وہ سمجھے کہ ان کے کرم یاد آئے
جو ہنس کر کسی نے کسی سے کہا کچھ
ہمیں بھی کسی کے ستم یاد آئے
کبھی دل کو دل سے جو دیکھا بچھڑتے
صدفؔ کو تمہارے کرم یاد آئے
غزل
جب اچھے تھے دن رات کم یاد آئے
مشتاق صدف