EN हिंदी
جب اچھے تھے دن رات کم یاد آئے | شیح شیری
jab achchhe the din raat kam yaad aae

غزل

جب اچھے تھے دن رات کم یاد آئے

مشتاق صدف

;

جب اچھے تھے دن رات کم یاد آئے
برا وقت آیا تو ہم یاد آئے

جو سمجھو محبت کی توہین ہے یہ
ستم گر سے پہلے ستم یاد آئے

زمانہ سے جب پڑ گیا واسطہ تو
تری زلف کے پیچ و خم یاد آئے

ملی جو محبت کے بدلے میں نفرت
ہمیں اہل دنیا کے غم یاد آئے

ہنسی آ گئی ان کی باتوں پہ یوں ہی
وہ سمجھے کہ ان کے کرم یاد آئے

جو ہنس کر کسی نے کسی سے کہا کچھ
ہمیں بھی کسی کے ستم یاد آئے

کبھی دل کو دل سے جو دیکھا بچھڑتے
صدفؔ کو تمہارے کرم یاد آئے