جب آسمان پر مہ و اختر پلٹ کر آئے
ہم رخ پہ دن کی دھوپ لیے گھر پلٹ کر آئے
نظارہ جن کا باعث رحم نگاہ تھا
آنکھوں کے سامنے وہی منظر پلٹ کر آئے
ہر گھر سلگ رہا تھا عجب سرد آگ میں
جب عرصہ گاہ جنگ سے لشکر پلٹ کر آئے
صد رشک التفات تھا جب اس کا جور بھی
جی کیوں نہ چاہے پھر وہ ستم گر پلٹ کر آئے
جو بات گفتنی تھی وہی ان کہی رہی
بے رس جو تذکرے تھے زباں پر پلٹ کر آئے
دنیا سے ہو گئے نہ ہوں آزردہ دل کہیں
پھر اس زمین پر نہ پیمبر پلٹ کر آئے
یہ بات اگر ہے سچ کہ پلٹتا نہیں ہے وقت
لمحات غم مرے لیے کیوں کر پلٹ کر آئے
کہتے ہیں اس نے دیکھی تھی کل ایک جل پری
ہر لب پہ ہے دعا کہ شناور پلٹ کر آئے
اے عابدؔ آسماں پہ نہ کچھ بھی اثر ہوا
مجھ پر ہی میری آہ کے پتھر پلٹ کر آئے
غزل
جب آسمان پر مہ و اختر پلٹ کر آئے
عابد مناوری