جب آنکھ اس صنم سے لڑی تب خبر پڑی
غفلت کی گرد دل سے جھڑی تب خیر پڑی
پہلے کے جام میں نہ ہوا کچھ نشہ تو آہ
دل بر نے دی تب اس سے کڑی تب خبر پڑی
لائے تھے ہم تو عمر پٹا یاں لکھا ولے
جب سیاہی پر سفیدی چڑی تب خبر پڑی
داڑھیں لگیں اکھڑنے کو دنداں ہوے شہید
مجلس میں چل بچل یہ پڑی تب خبر پڑی
بن دانت بھی ہنسے پہ جب آنکھیں چلیں تو آہ!
جب لاگی آنسوؤں کی جھڑی تب خبر پڑی
شہتیر سا وہ قد تھا سو خم ہو کے جھک گیا
گرنے لگی کڑی پہ کڑی تب خبر پڑی
نیچا دکھایا شیر نے تو بھی یہ سمجھے جھوٹ
جب چاب لی گلے کی نڑی تب خبر پڑی
جب آئے اس گڑھے میں نظیرؔ اور ہزار من
اوپر سے آ کے خاک پڑی تب خبر پڑی
غزل
جب آنکھ اس صنم سے لڑی تب خبر پڑی
نظیر اکبرآبادی