جب آفتاب سے چہرا چھپا رہی تھی ہوا
نظر بچا کے ترے شہر جا رہی تھی ہوا
میں اس کو روتا ہوا دیکھتا رہا چپ چاپ
چنبیلی گھاس پہ ٹپ ٹپ گرا رہی تھی ہوا
وہ ماں ہے آب رواں کی تبھی سمندر کو
اٹھا کے گود میں جھولا جھلا رہی تھی ہوا
وہ خواب تھا یا سفر آنے والے موسم کا
مری پڑی تھی زمیں زہر کھا رہی تھی ہوا
نہ جانے دوش پہ کس کو اٹھا کے رات گئے
طبیب شہر کا در کھٹکھٹا رہی تھی ہوا
میں گرم و سرد کو تقدیر سمجھے بیٹھا رہا
نظام موسم ہستی چلا رہی تھی ہوا
تمام عمر میں سمجھا ہوا مخالف ہے
مرے چراغ میں خود کو جلا رہی تھی ہوا
غزل
جب آفتاب سے چہرا چھپا رہی تھی ہوا
شہنواز زیدی