EN हिंदी
جب آفتاب سمندر میں جا گراتا ہوں | شیح شیری
jab aaftab samundar mein ja giraata hun

غزل

جب آفتاب سمندر میں جا گراتا ہوں

اسامہ ذاکر

;

جب آفتاب سمندر میں جا گراتا ہوں
تب اپنے آپ سے باہر نکل کے آتا ہوں

حسین خوابوں کو سارے ہرے پرندوں کو
جھلستی ذات کے صحرا میں چھوڑ آتا ہوں

جو ٹوٹتا ہے اجالوں کے شہر میں تارا
میں جگنوؤں کے لئے آشیاں بناتا ہوں

یہ میں نہیں ہوں یہ تیری نظر کا دھوکہ ہے
تو کون ہوں میں کسی کو نہیں بتاتا ہوں