جب آفتاب گھر پہ بلایا تھا شام نے
کیا کیا دیے تھے جن کو جلایا تھا شام نے
کیا کیا خوشی تھی وعدۂ ماہ تمام کی
گھر کو بہشت زار بنایا تھا شام نے
کیا کیا تھے خواب رات جو تعبیر ہو گئے
کیا کیا دلوں میں حشر اٹھایا تھا شام نے
کیا کیا اڑی تھی گردش دوراں کے دل میں خاک
جب رت جگے سے ہاتھ ملایا تھا شام نے
کیا کیا گماں مہکنے لگے تھے پس خیال
جب مسکرا کے جام اٹھایا تھا شام نے
کیا کیا سحر نے پھول کھلائے پس شفق
کیا کیا دیار شب کو سجایا تھا شام نے
غزل
جب آفتاب گھر پہ بلایا تھا شام نے
خورشید ربانی