EN हिंदी
جاؤں کیا منہ لے کے میں وہ بد گماں ہو جائے گا | شیح شیری
jaun kya munh le ke main wo bad-guman ho jaega

غزل

جاؤں کیا منہ لے کے میں وہ بد گماں ہو جائے گا

راغب بدایونی

;

جاؤں کیا منہ لے کے میں وہ بد گماں ہو جائے گا
رنگ کے اڑنے سے عشق اس پر عیاں ہو جائے گا

عیش بزم بے خودی جوش فغاں ہو جائے گا
ہم کہاں ہوں گے جو راز غم عیاں ہو جائے گا

دوسرا عالم بنے تو ہو سکے تسکین حسن
اب ہے جتنا یہ تو صرف امتحاں ہو جائے گا

تا اجل پہنچائے گی یہ ناتوانی ہجر میں
ضعف بڑھتے بڑھتے زور ناتواں ہو جائے گا

میری خاموشی کو ظالم جور بے جا سے نہ چھیڑ
ورنہ ضبط‌ دل تری ضد سے فغاں ہو جائے گا

شوق سے غیروں میں جائے میں نہ ہوں گا بد گماں
خوئے بد سے خود وہ اپنا پاسباں ہو جائے گا

دل نشیں ہے عالم ذوق اسیری کا خیال
اب دل صیاد اپنا آشیاں ہو جائے گا

غم سے میرے گھر میں گنجائش نہیں ہے عیش کی
نغمہ خواں بھی آئے گا تو نوحہ خواں ہو جائے گا

موسم باراں میں کیوں ہے دشت کا قصد اے جنوں
آج کل تو دشت اپنا ہی مکاں ہو جائے گا

خوبئ گفتار سے سمجھے گا کون اس کا جواب
حشر سارا محو انداز بیاں ہو جائے گا

کیا یقیں تھا ہم جو پہنچیں گے وہاں اے جوش اشک
وہم اپنا بڑھ کے اس کا پاسباں ہو جائے گا

کہہ سکے گا کچھ بھی اے راغبؔ نہ اس خاموش سے
بے دہن کے سامنے تو بے زباں ہو جائے گا