جاتے جاتے دیکھنا پتھر میں جاں رکھ جاؤں گا
کچھ نہیں تو ایک دو چنگاریاں رکھ جاؤں گا
نیند میں بھی خواب رکھنے کی جگہ باقی نہیں
سوچتا ہوں یہ خزانہ اب کہاں رکھ جاؤں گا
سب نمازیں باندھ کر لے جاؤں گا میں اپنے ساتھ
اور مسجد کے لیے گونگی اذاں رکھ جاؤں گا
جانتا ہوں یہ تماشہ ختم ہونے کا نہیں
ہال میں اک روز خالی کرسیاں رکھ جاؤں گا
چاند سورج اور تارے پھونک ڈالوں گا سبھی
اس زمیں پر ایک ننگا آسماں رکھ جاؤں گا
چھوڑ دوں گا اب میں علویؔ آخری دن کی تلاش
اور ادب کے شہر میں خالی مکاں رکھ جاؤں گا
غزل
جاتے جاتے دیکھنا پتھر میں جاں رکھ جاؤں گا
محمد علوی