EN हिंदी
جاتا ہے یار سیر کو گل زار کی طرف | شیح شیری
jata hai yar sair ko gulzar ki taraf

غزل

جاتا ہے یار سیر کو گل زار کی طرف

شعور بلگرامی

;

جاتا ہے یار سیر کو گل زار کی طرف
میری نگاہ ہے گل رخسار کی طرف

ہوتی ہے میرے سامنے تصویر یار کی
جب دیکھتا ہوں میں در و دیوار کی طرف

یارب ہو خیر آج کہ کچھ دیکھتا ہے وہ
میری طرف کبھی کبھی تلوار کی طرف

کرتا ہے قتل عاشق مسکیں کو بزم میں
دزدیدہ دیکھنا ترا اغیار کی طرف

حسرت ہے یہ مریں بھی جو قید قفس میں ہم
صیاد پھینک دے ہمیں گل زار کی طرف

چاک قفس سے دیکھ تو اے عندلیب زار
کچھ لگ رہی ہے آگ سی گل زار کی طرف