EN हिंदी
جاتا ہے جو گھروں کو وہ رستہ بدل دیا | شیح شیری
jata hai jo gharon ko wo rasta badal diya

غزل

جاتا ہے جو گھروں کو وہ رستہ بدل دیا

فاطمہ حسن

;

جاتا ہے جو گھروں کو وہ رستہ بدل دیا
آندھی نے میرے شہر کا نقشہ بدل دیا

پہچان جن سے تھی وہ حوالے مٹا دیے
اس نے کتاب ذات کا صفحہ بدل دیا

کتنا عجیب ہے وہ مصور کہ غور سے
دیکھے جو خد و خال تو چہرہ بدل دیا

وہ کھیل تھا مذاق تھا یا خوف تھا کوئی
اک چال چل کے اس نے جو مہرہ بدل دیا

کرتا رہا اسیری کے احساس کو شدید
زنجیر کھول دی کبھی پہرا بدل دیا