جاری ہے کب سے معرکہ یہ جسم و جاں میں سرد سا
چھپ چھپ کے کوئی مجھ میں ہے مجھ سے ہی ہم نبرد سا
جاتے کہاں کہ زیر پا تھا ایک بحر خوں کنار
اڑتے تو بار سر بنا اک دشت لاجورد سا
کس چاندنی کی آنکھ سے بکھری شفق کی ریت میں
موتی سا ڈھل کے گر پڑا شام کے دل کا درد سا
نازک لبوں کی پنکھڑیاں تھرتھرا تھرتھرا گئیں
تیز رو باد درد تھی چہرہ تھا گرد گرد سا
مہندی رچی بہار کا آنگن خوشی سے بھر گیا
مہماں ہے گھر میں آج وہ چاند سنہرا زرد سا
دیکھا تو اہل شہر سب اس کو ہی لینے آئے تھے
اک اجنبی جو ساتھ تھا راہ میں کم نورد سا
کس دست ناز میں ظفرؔ آئینۂ وجود تھا
بکھرا ہوں کائنات میں ہر سمت فرد فرد سا

غزل
جاری ہے کب سے معرکہ یہ جسم و جاں میں سرد سا
ظفر غوری