جانوں میں نہ جبکہ نام اس کا
پوچھوں کیا کہہ مقام اس کا
ہے دل کوں تپش کچھ اور ہی آج
لاتا ہے کوئی پیام اس کا
نامہ کہ تو کیا جگہ کہ قاصد
لایا ہی نہ یاں سلام اس کا
مت لیجیو دل تو چاہ کا نام
قتل عاشق ہے کام اس کا
ہو جائے گا پائمال بیدارؔ
دیکھے گا اگر خرام اس کا
غزل
جانوں میں نہ جبکہ نام اس کا
میر محمدی بیدار