EN हिंदी
جانوں میں نہ جبکہ نام اس کا | شیح شیری
jaanun main na jabki nam us ka

غزل

جانوں میں نہ جبکہ نام اس کا

میر محمدی بیدار

;

جانوں میں نہ جبکہ نام اس کا
پوچھوں کیا کہہ مقام اس کا

ہے دل کوں تپش کچھ اور ہی آج
لاتا ہے کوئی پیام اس کا

نامہ کہ تو کیا جگہ کہ قاصد
لایا ہی نہ یاں سلام اس کا

مت لیجیو دل تو چاہ کا نام
قتل عاشق ہے کام اس کا

ہو جائے گا پائمال بیدارؔ
دیکھے گا اگر خرام اس کا