EN हिंदी
جانتی ہوں کہ وہ خفا بھی نہیں | شیح شیری
jaanti hun ki wo KHafa bhi nahin

غزل

جانتی ہوں کہ وہ خفا بھی نہیں

زاہدہ حنا

;

جانتی ہوں کہ وہ خفا بھی نہیں
دل کسی طور مانتا بھی نہیں

کیا وفا و جفا کی بات کریں
درمیاں اب تو کچھ رہا بھی نہیں

درد وہ بھی سہا ہے تیرے لیے
میری قسمت میں جو لکھا بھی نہیں

ہر تمنا سراب بنتی رہی
ان سرابوں کی انتہا بھی نہیں

ہاں چراغاں کی کیفیت تھی کبھی
اب تو پلکوں پہ اک دیا بھی نہیں

دل کو اب تک یقین آ نہ سکا
یوں نہیں ہے کہ وہ ملا بھی نہیں

وقت اتنا گزر چکا ہے حناؔ
جانے والے سے اب گلہ بھی نہیں