EN हिंदी
جانتے تھے غم ترا دریا بھی تھا گہرا بھی تھا | شیح شیری
jaante the gham tera dariya bhi tha gahra bhi tha

غزل

جانتے تھے غم ترا دریا بھی تھا گہرا بھی تھا

اسرارالحق اسرار

;

جانتے تھے غم ترا دریا بھی تھا گہرا بھی تھا
ڈوبنے سے پیشتر سوچا بھی تھا سمجھا بھی تھا

آئنہ اے کاش تو اپنا بنا لیتا مجھے
فائدہ اس میں بہت تیرا بھی تھا میرا بھی تھا

اک عذاب جان تھی اس کی تنک خوئی مگر
ذائقہ اس درد کا میٹھا بھی تھا تیکھا بھی تھا

کیسے پڑھ لیتا میں اس چہرہ سے اپنا حال دل
وہ رخ جگنو صفت جلتا بھی تھا بجھتا بھی تھا

یوں کیا ہے مدتوں میں نے غزل کا مشغلہ
ایک تیرے نام کو لکھتا بھی تھا پڑھتا بھی تھا

دل کی راہوں میں بہ ہر صورت رہی اک روشنی
چاند تیرے درد کا بڑھتا بھی تھا گھٹتا بھی تھا

ہم نے تیرے عکس کو تقسیم کب ہونے دیا
آئنہ تو بارہا ٹوٹا بھی تھا بکھرا بھی تھا

جب وہ رخصت ہو گئے ہم سے تو یاد آیا ہمیں
ان سے اے اسرارؔ کچھ کہنا بھی تھا سننا بھی تھا