جانب منزل سفر میں روشنی سی ہے ابھی
اس اندھیری رات میں بھی چاندنی سی ہے ابھی
جو ہمارے دل میں ہے وہ بوجھ لیں گے خود کبھی
بات کیا سمجھایئے جو ان کہی سی ہے ابھی
ہے وہی دھڑکن پرانی پر مری سانسوں میں کیوں
اک نئی خوشبو ہے مانو تازگی سی ہے ابھی
کیا وہی آئے گی لے کر چلچلاتی دوپہر
اک سہانی دھوپ جو لگتی بھلی سی ہے ابھی
ہو سکے دہرائیے نہ بات جو سچی لگے
دشمنی بن جائے گی جو دوستی سی ہے ابھی
غزل
جانب منزل سفر میں روشنی سی ہے ابھی
جتیندر ویر یخمی جے ویرؔ