جانے یہ کس کی بنائی ہوئی تصویریں ہیں
تاج سر پر ہیں مگر پاؤں میں زنجیریں ہیں
کیا مری سوچ تھی کیا سامنے آیا میرے
کیا مرے خواب تھے کیا خواب کی تعبیریں ہیں
کتنے سر ہیں کہ جو گردن زدنی ہیں اب بھی
ہم کہ بزدل ہیں مگر ہاتھ میں شمشیریں ہیں
چار جانب ہیں سیہ رات کے سائے لیکن
افق دل پہ نئی صبح کی تنویریں ہیں
اس کی آنکھوں کو خدا یوں ہی سلامت رکھے
اس کی آنکھوں میں مرے خواب کی تعبیریں ہیں
غزل
جانے یہ کس کی بنائی ہوئی تصویریں ہیں
امیر قزلباش