جانے وہ چیز کیا تھی جو چمکی زمین پر
اجلے سے لوگ آ گرے میلی زمین پر
تیرے لیے وہ دھوپ کا ٹکڑا رہا رہے
میرے لیے تو آگ سی برسی زمین پر
سورج نے دی جو آگ وہ سورج میں گھول دی
تھی راکھ اس زمیں کی سو رکھ دی زمین پر
یہ بد حواس جسم کسی کام کا نہیں
لگتا ہے جیسے لاش ہو جلتی زمین پر
یہ فاصلہ نہیں ہے ضرورت کی بات ہے
تتلی ہے پھول پر تو ہے چینٹی زمین پر
پہلے پہل تو میں اسے شاعر نہیں لگا
اب شعر کہہ رہا ہے وہ میری زمین پر

غزل
جانے وہ چیز کیا تھی جو چمکی زمین پر
چراغ بریلوی