جانے والے اتنا بتا دو پھر تم کب تک آؤ گے
پھول بھی اب مرجھانے لگے ہیں، بولو کب اپناؤ گے
دل کے اس البم میں تو اب بس تصویر تمہاری ہے
من مندر کے دوار پہ اپنے تم بھی کچھ لٹکاؤ گے
رات کی تنہائی میں جب بھی یاد ہماری آئے گی
نیند تمہاری اڑ جائے گی اور بہت گھبراؤگے
پیروں کی زنجیریں کاٹو اور ہمت سے کام بھی لو
ورنہ قید میں رہ کر یوں ہی جیون بھر پچھتاؤ گے
دنیا کی اک ریت پرانی، ملنا اور بچھڑنا ہے
ایک زمانہ بیت گیا ہے تم کب ملنے آؤ گے
اب نہیں آتا ہے سندیسہ کوئی تمہاری نگری سے
کس کو تھا معلوم کہ تم بیگانے سے ہو جاؤ گے
پھولوں کے دن بیت نہ جائیں آؤ آؤ آ بھی جاؤ
کب تک جھوٹے وعدوں سے تم اعظمؔ کو بہلاؤ گے
غزل
جانے والے اتنا بتا دو پھر تم کب تک آؤ گے
امام اعظم