جانے والا اضطراب دل نہیں
یہ تڑپ تسکین کے قابل نہیں
جان دے دینا تو کچھ مشکل نہیں
جان کا خواہاں مگر اے دل نہیں
تجھ سے خوش چشم اور بھی دیکھے مگر
یہ نگہ یہ پتلیاں یہ تل نہیں
رہتے ہیں بے خود جو تیرے عشق میں
وہ بہت ہشیار ہیں غافل نہیں
جو نہ سسکے وہ ترا کشتہ ہے کب
جو نہ تڑپے وہ ترا بسمل نہیں
ہجر میں دم کا نکلنا ہے محال
آپ آ نکلیں تو کچھ مشکل نہیں
آئیے حسرت بھرے دل میں کبھی
کیا یہ محفل آپ کی محفل نہیں
ہم تو زاہد مرتے ہیں اس خلد پر
جو بہشتوں میں ترے شامل نہیں
وہ تو وہ تصویر بھی اس کی جلالؔ
کہتی ہے تم بات کے قابل نہیں
غزل
جانے والا اضطراب دل نہیں
جلالؔ لکھنوی