جانے کیوں لوگ غم سے ڈرتے ہیں
ہم تو آلام میں نکھرتے ہیں
جو خوشی کے سراب میں گم ہیں
وہ خوشی سے ہی اپنی مرتے ہیں
غم بھی رکھتے ہیں ساتھ خوشیوں کے
زندگی میں جو رنگ بھرتے ہیں
ٹوٹ جاتے ہیں سب غموں کے حصار
موتی خوشیوں کے جب بکھرتے ہیں
لاکھ خوشیاں انہیں مبارک ہوں
ہم غموں سے ہی دل کو بھرتے ہیں
ڈوب جاتے ہیں جو کنارے پر
وہ کہاں ڈوب کر ابھرتے ہیں
حالت دل بتائیں ہم ان کو
کیسے دن رات اب گزرتے ہیں
کھل ہی جاتے ہیں ان پہ عیب و ہنر
آئینے سے جو بات کرتے ہیں
آئنہ دیکھتا ہے حیرت سے
وہ جس انداز سے سنورتے ہیں
کیا بھروسہ ہے زندگی کا اثرؔ
روز جیتے ہیں روز مرتے ہیں
غزل
جانے کیوں لوگ غم سے ڈرتے ہیں
اثر اکبرآبادی