EN हिंदी
جانے کیوں باتوں سے جلتے ہیں گلے کرتے ہیں لوگ | شیح شیری
jaane kyun baaton se jalte hain gile karte hain log

غزل

جانے کیوں باتوں سے جلتے ہیں گلے کرتے ہیں لوگ

سلطان رشک

;

جانے کیوں باتوں سے جلتے ہیں گلے کرتے ہیں لوگ
تیری میری دوستی کے تذکرے کرتے ہیں لوگ

سنگ باری کر رہے ہیں دوسروں کے صحن میں
اور چکنا چور اپنے آئنے کرتے ہیں لوگ

جن کا دعویٰ تھا مداوا ہوگا سب کے درد کا
اب تو ان کی ذات پر بھی تبصرے کرتے ہیں لوگ

اپنا گھر روشن ہو ظلمت میں رہے سارا جہاں
جانے کن لمحوں میں ایسے فیصلے کرتے ہیں لوگ

ہر بکھرتی رت میں جاگ اٹھتے ہیں یادوں کے جہاں
اپنے اپنے بے وفاؤں کے گلے کرتے ہیں لوگ

رنگ ہے بے قید امکاں اور خوشبو لا مکاں
اس سراپا رنگ و نکہت سے گلے کرتے ہیں لوگ