EN हिंदी
جانے کیا سوچ کے اس نے ستم ایجاد کیا | شیح شیری
jaane kya soch ke usne sitam ijad kiya

غزل

جانے کیا سوچ کے اس نے ستم ایجاد کیا

فیض الحسن

;

جانے کیا سوچ کے اس نے ستم ایجاد کیا
خود بھی برباد ہوا مجھ کو بھی برباد کیا

شمع کی طرح جلے ہم تری محفل میں مگر
تو نے کس وقت ہمیں کون سی شب یاد کیا

جنبش لب کی اجازت ہے نہ اذن پرواز
کس لئے تو نے مجھے قید سے آزاد کیا

شکر ہے تو نے مجھے درد کے قابل سمجھا
تیری پیماں شکنی نے مرا دل شاد کیا

ہائے اس شخص کی خاطر شکنی ہوتی ہے
جس نے اپنے کو تری یاد میں برباد کیا

اپنی بربادی پہ نازاں بھی ہوں حیران بھی ہوں
شمعیں روشن ہوئیں جب میں نے تجھے یاد کیا

تجھ کو یہ ناز کہ تو خالق نغمہ ہے خیالؔ
مجھ کو یہ فخر کہ تو نے مجھے برباد کیا