جانے کیا سوچ کے اس نے ستم ایجاد کیا
خود بھی برباد ہوا مجھ کو بھی برباد کیا
شمع کی طرح جلے ہم تری محفل میں مگر
تو نے کس وقت ہمیں کون سی شب یاد کیا
جنبش لب کی اجازت ہے نہ اذن پرواز
کس لئے تو نے مجھے قید سے آزاد کیا
شکر ہے تو نے مجھے درد کے قابل سمجھا
تیری پیماں شکنی نے مرا دل شاد کیا
ہائے اس شخص کی خاطر شکنی ہوتی ہے
جس نے اپنے کو تری یاد میں برباد کیا
اپنی بربادی پہ نازاں بھی ہوں حیران بھی ہوں
شمعیں روشن ہوئیں جب میں نے تجھے یاد کیا
تجھ کو یہ ناز کہ تو خالق نغمہ ہے خیالؔ
مجھ کو یہ فخر کہ تو نے مجھے برباد کیا

غزل
جانے کیا سوچ کے اس نے ستم ایجاد کیا
فیض الحسن