جانے کیا ہے جسے دیکھو وہی دلگیر لگے
شہر کا شہر ہی اب معتقد میر لگے
صبح آشفتہ مزاجوں کی پریشاں سخنی
رات اک مار سیہ جیسے عناں گیر لگے
اب تو جس آنکھ کو دیکھو وہی پتھرائی ہوئی
اب تو جس چہرے کو آواز دو تصویر لگے
جانے کس شہر طلسمات میں آ نکلا ہوں
اپنے قدموں کی صدا حلقۂ زنجیر لگے
یہی مقدور مسافت ہے کہ خیمے جل جائیں
یہی مقسوم سفر ہے کہ کوئی تیر لگے
زندگی بھر جنہیں جاں کہہ کے پکارا گیا شوقؔ
وہی سینے سے مرے صورت شمشیر لگے
غزل
جانے کیا ہے جسے دیکھو وہی دلگیر لگے
رضی اختر شوق