EN हिंदी
جانے کیا بات ہے کیوں گرمئ بازار نہیں | شیح شیری
jaane kya baat hai kyun garmi-e-bazar nahin

غزل

جانے کیا بات ہے کیوں گرمئ بازار نہیں

رئیس اختر

;

جانے کیا بات ہے کیوں گرمئ بازار نہیں
اب کوئی جنس وفا کا بھی خریدار نہیں

لوگ اک شخص کو لے جاتے ہیں مقتل کی طرف
اس پہ الزام ہے اتنا کہ گنہ گار نہیں

زندگی زخم سہی زخم کا درماں کیجے
کوئی اس شہر میں زخموں کا خریدار نہیں

پیکر شعر میں ڈھل جائے کسی کا چہرہ
میرے اظہار محبت کا یہ معیار نہیں

تیری اک نیچی نظر عمر کا سرمایہ ہے
ساقیا میں ترے ساغر کا طلب گار نہیں

یوں بھی ہم درد کو پہلو میں چھپا لیتے ہیں
مجرم شوق ہیں رسوا سر بازار نہیں

اپنی مرضی سے یہاں مجھ کو بہا لے جائے
تیز اتنی تو ابھی وقت کی رفتار نہیں

آپ کے درد سے رشتہ ہے مرے دل کا رئیسؔ
کون کہتا ہے کہ میں آپ کا غم خوار نہیں